ھومیو پیتھک ایک قدیم طریقہ علاج ہے ۔ یہ طریقہ علاج انیسویں صدی سے بہت پہلے جرمنی میں شروع ہوا اور انیسویں صدی کے آغاز میں اس کا باقاعدہ آغاز امریکہ میں بھی ہوا۔ اس کے بعد تقریباََ پوری دنیا میں اس کا استعمال شروع ہو گیا۔ اس طریقہ علاج میں تقریباََ تمام دیسی اور قدرتی ادویات کے نچوڑ یا عرقیات استعمال ہوتے ہیں۔
ھومیو پیتھک میڈیسن کے برے اثرات
ھومیو پیتھک میڈیسن لینے میں مستقبل مزاجی برقرار رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اس طریقہ علاج میں باقاعدگی کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اس کا طریقہ علاج چھوٹے چھوٹے وقفوں اور کم مقدار کے چند قطروں پر مشتمل ہوتا ہے جو کہ مریض کے لیے اکتاہٹ کا باعث بنتا ہے اور مریض اس طریقہ علاج سے جلد ہی دل برداشتہ ہو کر مزید علاج ترک کر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ ہومیو پیتھک کا لمبا طریقہ علاج کئی طرح کی دیگر بیماریوں کو بھی دعوت دے سکتا ہے ۔ ایک مریض کا کہنا تھا کہ اس نے مسلسل تین سال تک ہومیو علاج جاری رکھا اتنے طویل عرصہ کے بعد اس کو سانس کی تکلیف محسوس ہونے لگی اور ساتھ ہی سینے کی جلن، تیزابیت اور گیس کی بیماریاں بھی لاحق ہو گی ۔ ہومیو پیتھک کے ماہرین سے جب اس بارے میں مشورہ لیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ ایسا ہر مریض کے ساتھ نہیں ہوتا ، چند مریضوں میں ایسا ہو بھی سکتا ہے تاہم اس میں ہیومیو پیتھک ادویات کی کوالٹی اور دوائی کےطریقہ استعمال پر بھی منحصر ہے۔قارئین کی دل چسپی کے لیے یہاں کچھ ہومیو پیتھک کے انسانی جسم پر برے اثرات بتائے جا رہے ہیں جو ماہرین نے اپنے تجربات سے اخذ کئے ہیں۔ لیکن یہ بات یاد رکھیں کے ضروری نہیں کے یہ اثرات سب مریضوں پر لاحق ہوں۔
ھومیو پیتھک طریقہ علاج لمباہے تاہم اس کے کچھ مضر اثرات بھی نوٹ کئے گئے ہیں جو درج ذیل ہیں۔
Homeopathic Medicine Side Effects in Urdu
دوستو ! یہ بات عمومی طور پر سننے میں آتی ھے کہ ھومیوپیتھکک دواؤں کے کوئی ضمنی اثرات نہیں ھوتے اور یہ کہ ھومیوپیتھک دواء اگر فائدہ نہیں کرے گی، تو نقصان بھی نہیں دے گی یہ تصور کچھ اسطرح سے لوگوں کے زھن میں جاگزیں کر دیا گیا ھے کہ لوگ بلا جھجک دواؤں کا استعمال خود علمی کی بنیاد پر کرتے ھیں
یہ بات کہاں تک درست ھے اور کیا واقعی ھومیوپیتھک دوائیں سائیڈ افیکٹس سے مبرا ھوتی ھیں ،آئیے اس کا مفروضے کی حقیقت سے پردہ اٹھاتے ھیں
دوستو یہ بات تو ایک حقیقت ھے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کوئی چیز بیکار یا بلا مصرف پیدا نہیں فرمائی، یہاں تک کہ وہ اجسام جنہیں ھم خوردبین کے بغیر نہیں دیکھ سکتے، ان کی تخلیق میں قدرتِ خداوندی پنہاں ھے۔
(یہ چونکہ اسوقت ھمارا موضوع گفتگو نہیں ھے، لہٰزا اسکو یہیں چھوڑ کر آگے بڑھتے ھیں )
تو کیا جو چیز وجود رکھتی ھو، کیسے ممکن ھے کہ اثر نہ رکھتی ھو – یہ الگ بات ھے کہ اسکا اثر اتنا خفیف ھو کہ ھم محسوس نہ کر پائیں، یا اسکا اثر ھونے کا احساس ھمارے حواس ِخمسہ فوری طور پر نہ کر پائیں، لیکن جلد یا بہ دیر وہ چیز اپنے اثر کا اظہار ضرور کرتی ھے، یہ اثر چاھے خفیف ھو یا شدید
مثال کے طور پر، اگر کوئی چیونٹی ھمارے پیر پر کاٹ لے تو ھمیں اس کے کاٹنے کا احساس تو فوری طور پر ھو جاتا ھے، لیکن ھمارا جسمانی ردِ عمل اتنا شدید نہیں ھوتا جتنا کہ ایک بِھڑ یا بچھو کے کاٹنے پر ھوتا ھے
امید ھے یہ بنیادی بات آپکے زھن میں بیٹھ گئی ھوگی یہی بات اگر ھم ھومیوپیتھک دواؤں کے اثرات کے متعلق کہیں تو کیا ھم یہ کہنے میں حق بجانب نہیں ھونگے کہ ھومیو ادویات اثر رکھتی ھیں گو کہ ھم ان میں ادویہ کے مالیکولز کو دیکھنے کی استعداد نہیں رکھتے
جراثیم کو تو ھم پھر بھی بزریعہ خوردبین دیکھ سکتے ھیں مگر ان کو پھر بھی نہیں
البتہ ان دواؤں کی اثر پزیری ھم ضرور دیکھ سکتے ھیں ۔
اب ایک چیز یا ھومیو دواء جس کے اجزاء کوھم دیکھ نہیں سکتے اسکے باوجود اسکے اندر چھپے ھوئے دوائیہ اثرات کو محسوس کر سکتے ھیں، پھر جہاں یہ اثرات شِفایئہ ھو سکتے ھیں تو کیا یہ اثرات تخریباً نہیں ھو سکتے؟
ضرور ھو سکتے ھیں، البتہ جیسا کہ ھم نےاوپر بیان کیا کہ ان کے منفی اثرات بہت معمولی نوعیت کے ھوں، یا اتنے شدید نہ ھوں کہ جن کا ھم فوری طور احساس کر سکیں
امید ھے یہاں تک کی بات آپ کو سمجھ آ گئی ھو گی
محترم مومیو ڈاکٹرز، جب آپکے پاس کوئی ایسا مریض آتا ھے جو کسی مزمن بیماری کا شکارھے
آپ جب کیس ٹکنگ کرتے ھوے ھسٹری معلوم کرتے ھیں، تو پتا چلتا ھے کہ آپ سے پہلے وہ کئی ڈاکٹرز کے زیرِ علاج رہ چکا ھے جن میں ایلوپیتھک اور ھومیوپیتھک ڈاکٹرز شامل ھیں جنہوں نے اسکو تختہ مشق بنا کر اسکی بیماری کی اصل شکل بگاڑنے میں کوئ کسر باقی نہیں چھوڑی
دوستو! یہی وہ مقام ھے جہاں پہ ھمیں یہ سمجھنا ھے کہ ھومیوپیتھک ادویات اپنے ضمنی اثرات کیسے ظاھر کرتی ھیں
یہاں یہ بات خصوصی طور پر توجہ طلب ھے کہ ھومیوپیتھک ادویات کے ضمنی اثرات، ایلوپیتھک ادویات کی طرح نہیں ھوتے بلکہ ان کی نوعیت بلکل مختلف ھوتی ھے۔ جو کہ ھومیوپیتھک ڈاکٹر کے علاوہ ،عام آدمی کی سمجھ سے بالا تر ھوتی ھے، اسی لیئے عام طور پر عوام میں یہی تاثر دیکھنے کو ملتا ھے کہ ” ھومیوپیتھک دواؤں کا کوئی سائیڈ افیکٹ نہیں ھوتا”
ھاں تو ڈاکٹرز ، ھم بات کر رھے تھے ھومیو دواؤں کے سائیڈ افیکٹس کی ۔
جب کوئی مریض تکلیف میں ھوتا ھے تو چاھتا ھے کہ اسکو فوری طور پرایسی دواء دی جائے جس سے اسے فوری سکون ملے
اب، ایلوپیتھی میں چونکہ درد کُش ادویات اور سکون آور ادویات کا استعمال زیادہ ھوتا ھے، اس لیئے مریض فوراً ایلوپیتھک علاج کی طرف رجوع کرتا ھے
ایلوپیتھک ڈاکٹر مریض کو کوئ پین کلر یا وقتی سکون آور دواء دیدیتا ھے – اسطرح مریض کو جب آرام ملتا ھے تو وہ سمجھتا ھے کہ ڈاکٹراسکا عللاج بہت اچھا کر رھا ھے۔ ڈاکٹر اسکو اور دواؤں کیساتھ بھی لکھ دیتا ھے اور ساتھ یہ بھی کہہ دیتا ھے کہ اگر تکلیف زیادہ ھو تو یہ دوا یعنی درد کُش یعنی کھا لینا – اب مریض اپنی اصل بیماری کو بھول کر پین کلرز کھانے کا عادی ھو جاتا ھے کیونکہ اِدھر تکلیف شروع ھوئی اُدھر جھٹ سے مریض نے پین کلر دوا کھا لی اس طرح اصل مرض اندر ھی اندر بڑھتا رھتا ھے- اسی لیئے کہتے ھیں”
“ مرض بڑھتا گیا ، جوں جوں دواء کی “
اور پھر ایک وقت آتا ھے کہ جب “مرض” حد سے زیادہ ترقی کر جاتا ھے، پھر نہ کوئ پین کلر دوا اثر کرتی ھے اور نہ ھی کوئ اور دواء اثر کرتی ھے
اس مرحلہ پر آکر مرض یا تو ” لا علاج ” ھو جاتا ھے یا پھر اپریشن کے علاوہ کوئی اور چارہ باقی نہیں بچتا
اب مریض بیچارہ اسقدر پریشان ھو جاتا ھے کہ اسکو سمجھ نہیں آتی کہ کرے تو کیا کرے – ایک تو اپریش کا نام سن کر عام انسان کو بھی جھر جھری آ جاتی ھے، تو مریض کی تو ویسے ھی اپریشن کےخوف سے آدھی جان پہلے ھی نکل چکی ھوتی ھے
پھر یہ کہ اپریشن کے اخراجات بھی آجکل ھر بندہ برداشت نہیں کر سکتا تو بات چلی جاتی ٹونے ٹوٹکوں اور تعویز گنڈوں پر مگر پھر وھی انجام ” مرض بڑھتا گیا، جوں جوں دواء کی ”
اور جب ھر طرف سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ھے تو پھر کوئی خُدا کابندہ ھومیوپیتھک علاج کروانے کا مشورہ دیتا ھے – یوں اندھے کو اندھیرے میں امید کی کرن نظر آتی ھے چار و نا چار مریض ھومیوپیتھ کے سامنے آ بیٹھتا ھے۔
اور سب سے پہلے اپنے ٹھیک ھونے کی گارنٹی کا بھی طلبگار ھوتا ھے
دوستو! اسوقت تک مریض کی اصل بیماری کے اوپر، ایلوپیتھک دواؤں کا مرض کو دبانے ان دواؤں کے سائیڈ افیکٹ سے لیکر ٹوٹکوں ٹاٹکوں کی، خُدا جانے کتنی تہیں چڑھ چکی ھوتی ھیں – اور مریض کی اصل بیماری کا انتہائی بگڑا ھوا حُلیہ مریض پیش کر رھا ھوتا ھے
حقیقت میں دیکھا جائے تو یہیں سے ھومیو پیتھک دواؤں کا کردار ،اثر اور ضمنی اثر شروع ھوتا ھے
یاد رکھیں اس قسم کے کیسسز ہومیوپیتھی اورھومیوپیتھک ڈاکٹرز کے لیئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتے ھیں – اس قسم کے کیسسز میں صرف اُنہی ھومیوپیتھس کو ھاتھ ڈالنا چاھیئے جنہیں کیس ٹیکنگ اور میٹیریا میڈیکا پر مکمل عبور حاصل ھو، ورنہ میرے جیسے کے ھتے چڑھ گیا تو مریض، اندھے کیساتھ ساتھ کانا بھی ھو جائےگا
اب ، ھومیو پیتھ کیس ٹیکنگ کرنے کے بعد اگر مریض کی درسرت مظہردواء تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ھوتا اور مریض کو کوئی اور دواء دیدیتا ھے تو جیسا کہ ھم پہلے بھی بتا چکے ھیں کہ انسانی جسم میں جو بھی چیز اندر جائے گی وہ اپنا اثر ضرور دکھائے گی چاھے وہ خفیف ھو یا شدید – اور یہ صرف مفروضہ نہیں بلکہ حقیقت ھے اور روزمرہ زندگی میں ھمارے سامنے اس قسم کے واقعات رونما ھوتے رھتے ھیں ھم بات چونکہ ھومیو دواؤں کے حوالے سےکر رھے ھیں اور ھومیو دوائیں چونکہ غیر مادی ھوتی ھیں، لہٰزا ان کے سائیڈ افیکٹس بھی غیر مادی ھونگے۔
مثال کے طور پر، ایک مریرض کو جب ھم اسکی مظہر دواء کی بجائے کوئی دوسری دواء دیدیتے ھیں تو اگلے دن ھی مریض صبح آپ کو آ کر بتائے گا کہ ڈاکٹر صاحب میں جب بھی دواء لیتا ھوں میرے سر میں درد شروع ھو جاتا ھے، یا میرے پیٹ میں گیس بنتی ھے یا میرے جسم میں سوئیاں چبھتی محسوس ھوتی ھیں وغیرہ وغیرہ
تو اس سے آپ کو کیا نتیجہ اخز کرنا چاھیئے، کیا ھم یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب نہ ھونگے کہ جو نئی علامات ظاھر ھو رھی ھیں (جو کہ پہلے مریض میں نہیں تھیں ) ھماری غلط منتخب دوا کا عمل ھو سکتا ھے، جی، بلکل ھو سکتا ھے اور
دوستو اسی کو عرفِ عام میں ھومیو دواء کا سائیڈ افیکٹ کہا جاتا ھے۔
یہاں یہ بات زھن میں رکھنی چاھیئے کہ ھومیو دواؤں کے ضمنی اثرات بھی زیادہ تر مومیو دواؤں کیطرح غیر مادی ھونگے – البتہ انکی شدت کبھی کم اور کبھی زیادہ ھو سکتی ھے-
ایک ھومیوپیتھ کو جب اس قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ھے تو وہ ھومیو پیتھک اصولوں کیمطابق یا تو غلط منتخب شدہ دواء کوکر دیتا ھے یا پھر اس کے نمودار شدہ ضمنی اثرات کی شدت کو کم کرکے دوبارہ کیس ٹیکنگ کر کے مریض کی درست مظہر دواء Right indicated remedy کو تلاش کرتا ھے
اور اگر وہ دوبارہ بھی مریض کی درست دوا کو ڈھونڈنے ناکام ھو کر پھر کوئ اور دواء دیدیتا ھے تو مریض کی اصل بیماری پر ایک تہہ Masking Layer چڑھا دیتا ھے
اب، جب مریض کی کرانک بیماری پر اتنی زیادہ تہیں چڑھ جاتی ھیں تو پھر اصل بیماری کے خدو خال واضح کرنے کے لیے ان تہوں کو ھومیو ڈاکٹر بزریعہ اپنے ھتیار یعنی دواؤں کے استعمال سے اتارتا ھے ۔ظاھر ھے کہ جو چیز ( بیماری ) بھاری ملبے تلے دب چکی ھے اس ملبے کو ھٹانے اور اصل چیز یعنی بیماری تک پہنچنے میں وقت تو لگے گا، اور ملبے کی یہ تہیں جتنی دبیز ھونگی اتنا ھی زیادہ وقت بھی انکو ھٹانے کے لیئے درکا ھوگا اسی لیئے ہومیوپیتھی فلاسفی اور ھومیوپیتھک طریقہ علاج سے ناواقف لوگ یہی کہتے ھیں کہ ھومیوپیتھک علاج بہت لمبا ھوتا ھے یا ھومیو دوائیں بہت دیر میں اثر کرتی ھیں ۔
ہومیوپیتھی سے نا بلد ان لوگوں کو کوئی بتائے کہ اگر آپ نے ھومیوپیتھک دواؤں اثر پزیری دیکھنی ھے تو حاد امراض میں دیکھیں، آپ اگر ایلوپیتھک انجکشن کو نہ بھول جائیں تو پھر کہنا