آج ھم مشروم ( کھمبی) کی ایک انتہائی مفید قسم گائنوڈرما پر بات کریں گے جو کہ جسم انسانی کے لیۓ ایک بے بہا خزانے سے کم نہیں حالت صحت اور حالت مرض ھر دو میں یہ بہت مفید پائی گئی ھے تو چلیں شروع کرتے ھیں ۔۔۔۔
مشروم (کھمبی)
گائنوڈرما لیوسی ڈم مشروم
کھمبی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی بنی نوع انسان کی اپنی تاریخ یہی وجہ ہے کہ ہر تہذیب کی منفرد تحریروں میں کھمبی کا ذکر دوا اور غذا کے طور پر ضرور ملتا ہے۔ پانچویں صدی قبل مسیح کا یونانی حکیم بقراط‘ طب کا باپ مانا جاتا ہے۔ وہ کھمبی کو ہڈیوں اور پٹھوں کا درد رفع کرنے کیلئے استعمال کرواتا تھا۔ طریقہ علاج یہ تھا کہ درد والی جگہ پر کھمبی کاسفوف رکھ کر داغ دیا جاتا تھا جس سے درد میں افاقہ ہوجاتا۔ اس طرح یونانی ماہر طب ڈائیو سکارڈس نے 200ءمیں اپنی کتاب میں کھمبی کے طبی اوصاف کا ذکر تفصیل سے کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ گنگن نامی کھمبی میں خون کو منجمد کرنے کی خاصیت موجود ہے۔
اس کی تاثیر گرم ہوتی ہے اسی بنا پر یہ درد قولنج‘ مروڑ اور زخمی اور سوجے ہوئے اعضا کے علاج کیلئے بھی مفید ہے۔ یہ ہڈی کی ٹوٹ پھوٹ کے علاوہ اس وقت بھی استعمال ہوتی ہے جب جسم چوٹ لگنے سے زخمی ہو‘ بخار کی حالت میں شہد ملا کراستعمال کرنے سے بخار اتر جاتا ہے۔ اس طرح یہ جگر‘ دمہ‘یرقان‘ اسہال‘ پیچش اور گردے کی تکلیف کیلئے بھی مفید ہے۔ مورجھا روگ یا اختناق الرحم(ہسٹریا) اور مرگی میں اس کو شہد اور ادرک کے ساتھ ہم وزن ملا کر استعمال کرنے سے بھی افاقہ ہوتا ہے۔ اگر بیماری کے حملے سے پیشتر ہی اس کا استعمال کیا جائے تو یہ بدن کو سخت ہوکر اکڑا جانے سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ شہد کے ساتھ اس کا استعمال قبض کشا ہے۔ سانپ کے کاٹے اور زخم پر لگانے سے تریاق کاکام دیتی ہے۔
آج بھی ناروے‘ سویڈن اور فن لینڈ کے لیپ باشندے کھمبی کودرد رفع کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ چینی اور جاپانی طریقہ علاج جسے موکسا بھی کہتے ہیں اسی اصول کے پیش نظر وضع کیا گیا ہے۔
لوگ پٹھوں کے درد اور کھنچے ہوئے پٹھوں کیلئے اس مخصوص کھمبی کا سفوف استعمال کرتے ہیں جس کا بیج دان گیند نما ہوتا ہے۔ اسے پف پال کہتے ہیں۔ یہ کھمبی نشہ آور دوا کے طور پر خاص عرصے تک آپریشن میں استعمال ہوتی رہی ہے۔ اس کا سفوف اگر جلایا جائے تو اس کے بخارات کلورو فارم جیسے ہوتے ہیں۔
اس کے سفوف کا دھواں آج بھی شہد کی مکھیوں کو چھتے سے علیحدہ کرکے شہد نکالنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ سفوف دیہات میں آج بھی خون بند کرنے کی مجرب دوا خیال کیا جاتا ہے۔ کھمبی کی ایک قسم ہوگ مشروم انتڑیوں کی ریزش اور مقعد کے پھوڑے پھنسی کیلئے مفید ہے۔ اس کے استعمال سے چہرے کے داغ دھبے ختم ہوجاتے ہیں۔ اس سے جلدی امراض دور کرنے کا محلول (لوشن) تیار کیا جاتا ہے جو آنکھوں کے درد کا بھی موثر علاج ہے۔ کھمبی سڑے ہوئے بدبودار ناسور اور سر کے پھوڑے پھنسی وغیرہ کیلئے فائدہ مند ہے۔ بائولے کتے کے کاٹے ہوئے زخم کو پانی میں بھگو کر اس کا مرہم استعمال کیا جاتا ہے۔
کھمبی پیلے یرقان اور شدید نزلہ زکام کا شرطیہ علاج ہے۔ یہ مرہم کسی زہریلے کیڑے کے کاٹے ہوئے پر لگانے اور کھمبی کو بطور غذا کھانے سے شفاءہوتی ہے۔ یہ پیشاب آور بھی ہے۔ علاوہ ازیں عورتوں کی ماہواری کو باقاعدہ رکھتی ہے اور حسن کو نکھارتی ہے۔
کھمبی کی ایک قسم قے اور دست آور دوا ہے۔ گلے کی سوجن اور دیگر تکالیف میں دودھ میں ابال کر استعمال کی جاتی ہے۔ فومز نامی کھمبی ہمارے ہاں جنگلات میں درختوں پر بکثرت اگتی ہے۔ اسے قدیم حکماءجراح کی کھمبی کہتے ہیں ۔ نوزائیدہ حالت میں اسے کاٹ کر کچھ عرصہ کیلئے رکھ دیا جاتا ہے پھر اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے موگری سے کوٹ کر سفوف بنالیتے ہیں جسے خون بند کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ کریمبال نامی کھمبی اینٹھن اور مروڑ رفع کرنے کیلئے استعمال کی جاتی ہے۔ دودھ والی کھمبی تاثیر میں پسینہ لانے والی اور پیشاب آور ہے اس کا استعمال پتھری کے مرض میں مفید ہے۔ یہ مسوں اور سخت دانوں کے علاج کیلئے استعمال ہوتی ہے۔ زہریلی کھمبی کی ایک قسم فلائی ایگرک مرگی اور دوسرے اعصابی امراض میں علاج کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ اس کا مکسچر ہیضے یا پیشاب جس میں چربی آتی ہو اور باری کے بخار میں بھی استعمال ہوتا ہے۔۔
یہ ایک بہت قیمتی جڑی بوٹی ہے۔ قدیم طب میں اسے نباتات کی بادشاہ کہا گیا ہے۔ قدیم شہنشاہوں نے اس کی تلاش کے لئے فوجی دستے رکھے ہوتے تھے جن کے ذمہ کام ہی یہ ہوتا تھا کہ وہ اس کھمبی کو تلاش کریں۔ جس خوش قسمت کے ہاتھ یہ کھمبی لگ جاتی بادشاہ اس سے کھمبی لے کر اسےعوضانے میں برابر کا سونا تول کر دیا جاتا۔ بادشاہ کا خیال تھا یہ وہ جڑی بوٹی ہے جس کو کھا کر موت نہیں آتی۔ اس بوٹی کی آفادیت کو دیکھتے ہوئے ملائیشیا کے ایک مشہور فارماسسٹ ڈاکٹر لم نے 10 سال تک اس پر ریسرچ کی۔ اور اس کی دس اقسام کو ٹشو ٹیکنالوجی کے استعمال سے اکٹھا کرکے اسے مصنوعی طور پر اگایا۔ یوں یہ بہت قیمتی جڑی بوٹی عام لوگوں تک رسائی حاصل کرگئی۔ اس جڑی بوٹی کے بے شمار فوائد ہیں بشرطیکہ اسے سال 6 ماہ استعمال کیا جائے۔ انسان کی پیدائش خلیہ سے ہوئی ہے۔ کھربوں خلئے مل کر ایک انسان وجود میں آتا ہے۔ ہم جس فضا میں سانس لیتے ہیں وہ مہلک کیمیائی مادوں سے بھری پڑی ہے۔ ہم جو غذا استعمال کرتے ہیں اس کی جڑوں میں کئی قسم کی زہریلی اور مہلک کھادوں کے عناصرشامل ہوتے ہیں۔ اور اس پر جن کیڑے مار ادویات کا سپرے کیا جاتا ہے وہ بھی جان لیوا ہوتے ہیں۔ ہمارا رہنے سہنے کا انداز بھی فطرت سے ہٹ گیا ہے۔
فطرت سے اس دوری کی بنا پر ہمارے جسم کے خلیے خراب ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور بیماری پیدا ہو جاتی ہے۔ یعنی بیماری کا آغاز کسی جرثومے کی بنیاد پر نہیں بلکہ ہمارے جسم کے خلیے خراب ہونے کی وجہ سے ہوتاہے۔ ہمارا جسم قدرت کا ایک انمول شاہکار ہے۔ قدرت نے اس کے اندر اپنے آپ کو بغیر کسی دوائی کے تندرست کرنے کی صلاحیت رکھی ہے۔ جب کسی قسم کا زہریلا مواد جسم میں کسی بھی ذریعے سے داخل ہوتا ہے۔ ہمارے جسم کا مدافعتی نظام یعنی ہمارے جسم کا ڈاکٹر بیدار ہوجاتا ہے اور جسم میں موجود اس زہریلے مواد کو جسم سے کئی ذرائع سے نکال باہر پھینکتا ہے۔ کبھی بلغم کے ذریعے، کبھی ابکائیوں کے ذریعے، کبھی پاخانے کے راستے اور کبھی پیشاب کے ذریعے۔ جسم کی مرمت کا یہ عمل سالہا سال نہیں بلکہ تازندگی جاری رہتا ہے۔ لیکن جب ہم قدرت کے خلاف کام کرنے لگتے ہیں تو یہ قوت مدافعت ختم ہو جاتی ہے۔ اس کی مثال میں ایسے دے سکتا ہوں۔ ہم جب کھانا کھاتے ہیں تو معدہ کھول رہا ہوتاے، تندور کی طرح دہک رہا ہوتا ہے، ہم اس پر ٹھنڈا پانی انڈیل دیتے ہیں۔ یوں ہم اس کے کام کا بیڑہ غرق کرکے گیس ٹربل کا امکان پیدا کردیتے ہیں۔ شغل ہی شغل میں ہم نے کولڈ ڈرنکس کی عادت اپنا لی ہے۔ ہمارے معدے کی اوجڑی پر جو ابھرے ہوئے کانٹے ہوتے ہیں ان کو ہم خود سے تباہ کر دیتے ہیں۔ یوں ہمارا ہاضمہ کولڈڈرنک کے تابع ہوجاتا ہے اور معدے کا نظام انہضام تباہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ کولڈ ڈرنک نہ صرف معدے کو تباہ کرڈالتے ہیں بلکہ ہمارے جسم کی ہڈیوں کو بھی بھربھرا کردیتا ہے، دانت تک بھرنے لگتے ہیں۔ لیکن ہم اپنی روٹین بدلنے پر تیار نہیں ہوتے۔
گائنو ڈرما ان امراض میں چند دوسرے مرکبات سے مل کر بہت اچھا کام کرتی ہے۔ اور میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ اس کے بعد کسی اور غذائی مرکب کی ضرورت نہیں پڑتی:
1۔ کینسر (آخری سٹیج پر)
2۔ گردے (چاہے ڈائیلسس کرواریے ہوں اپنی اصل حالت میں واپسی)
3۔ زیابیطس (دونوں اقسام)
4۔ مادے میں جراثیم کا نہ ہونا
5۔ جسم میں پتھریاں بننا۔
6۔ اندھراتا۔
7۔ بلڈ پریشر
8۔ دل کے والو بند ہونا۔
9۔ دل کا پھیلنا یا سکڑجانا
10۔ پاگل پن۔
11۔ تھائیرائیڈ
to buy this click the following link
12۔ دمہ، پرانی کھانسی۔
13۔ ہر قسم کی الرجی۔
14۔ امراض معدہ، تلی،
15۔ برین ٹیومر
16۔ امراض خواتین (رحم کی رسولی)
17۔ ماہواری کا بند ہوجانا یا کثرت سے آنا۔ہے۔